استاد اور آ ج کا طالب علم

0

 

از قلم : مصدق انصاری پاپولر

استاد وہ شخصیت ہےجس کو والدین کے جتنا درجہ دیا گیا۔استاد کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "بے شک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا"۔ استاد کے بارے میں شیر خدا حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے فرمایا "جس نے مجھے ایک حرف سکھایا وہ میرا آ قا اور میں اس کا غلام ہوں"۔آج کے دور میں تعلیم عام ہے اور سائنسی ایجادات عروج پر ہیں۔جہاں سائنس نے ترقی کی وہاں اس دور میں عزت, احترام،عقیدت اور خلوص جیسے جذبے ماند پڑ گئے ہیں۔ افسوس آ ج کے دور میں استاد کو عزت دینا اور اس کے سامنے نظریں نیچی رکھنا تو دور کی بات آ ج کے یہ نام نہاد طالب علم استاد کو کچھ سمجھتے ہی نہیں۔ غلط بات سے روکنے پر نہ صرف بدتمیزی بلکہ با قا عدہ لڑائی کی جاتی ہے۔اور تو اور 

 دھمکیاں دی جا تی ہیں۔ جس معاشرے میں استاد شاگرد سے ڈر جائے اس معاشرے کے لوگ کیا تعلیم حاصل کر رہے ہوں گے؟ نام کی تعلیم ؛جی ہاں نام تو تعلیم لیکن اصل میں بس وقت کا ضیاع ہے۔ جب ظلم و ستم اور جہالت کا اندھیرا چھا جائے تو علم والے روشنی کی کرن بن کر چمکتے ہیں اور وہ کرن سارے اندھیرے کو ختم کر دیتی ہے۔ لیکن جہاں علم صرف پیسے کمانے کا ذریعہ بن جائے۔ ہر جائز وناجائز طریقے سے نمبر حاصل کئے جائیں جیسے کہ نقل، سفارش اور تو اور پیسوں سے ڈگری حاصل کی جاتی ہے۔ اس معاشرے کو کون اندھیرے سے نکالے گا؟ جہاں استاد پر تشدد کیا جائے۔ اس پر ہاتھ اٹھایا جائے۔ غلط کام سے روکنے پر استاد کو اس قدر ذلیل کردیا جائے کہ وہ زہر کھا کر اپنی جان لینے پر مجبور ہو جائے ۔تو پھر اس معاشرے کو اندھیروں سے کون نکالے گا؟ یہ سوال میرے دماغ میں گونجتا ہے میرا دل روتا ہے کہ یہ کیسا طالب علم ہے جو اپنے ہی محسن کی جان لے لیتا ہے۔اس کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ ہم میں اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کا حوصلہ نہیں ہے۔ہم غلط ہو تے ہیں پر اپنی غلطی کو تسلیم نہیں کرتے۔پھر جب ہم خود ہی اپنا نقصان کر رہے ہوں تو کوئی لاکھ چاہے ہمارا فائدہ نہیں کرسکتا۔اس معاشرتی برائی کو روکنے کےلئے ہمیں اپنے آ پ کو خود سمجھانے کی ضرورت ہے۔ بچوں کو بڑوں کا ادب کرنا سکھانا اور استاد کی ڈانٹ برداشت کرنے کی تربیت دینی ہو گی۔انہیں استاد کا مقام بتانا ہو گا۔اور اساتذہ کو بھی چاہئیے کہ وہ طلباء کے ساتھ برابری کا سلوک روا رکھیں۔ کسی ایک کو دوسرے پر برتری نہ دیں۔ بلا وجہ کسی کو بھی نہ ڈانٹیں۔ ہم اپنی اپنی جگہ پر کوشش کریں گے تو ہی یہ معاشرہ صحیح معنوں میں تعلیم یافتہ ہوگا




ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے

کمینٹ باکس میں کوئی بیحدہ الفاظ نہ لکھے بڑی مہربانی ہونگی

ایک تبصرہ شائع کریں (0)