مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی بانی معہد ملت مولاناعبدالحمید نعمانی کاپرتو

0

 محفل ان کی ساقی ان کا آنکھیں میری باقی ان کا

تحریر: خلیل عباس (نمائندہ شامنامہ)


استغناء و بے نیازی ہردور میں علمائے کرام کا وصف رہا ہے،وہیں یہ بھی سچ ہے کہ ملت اسلامیہ جب جب مسائل اور بحران کی زد میں آئی ہے علمائے کرام نے ہی میدان عمل میں نکل کر اس کی سرکوبی کی ہے ،دینی معاملات کی بات کی جائے یا پھر شریعت محمدیہ کی پاسداری کی ،اھنے والے کسی کی طوفان پر بندھ بابندھنے کاکام ان علمائے کرام نے کیا ہے،اور مثل مشہو ر بھی ہے کہ قیادت مائیں نہیں بلکہ ملت ہی پیدا کرتی ہیں، بدقسمتی سے آج ہم علمائے کرام کو اپناقائد ماننے سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں،شہر اس وقت نشہ،چوری، جوا ،سٹہ،خودکشی اورقتل عام جیسی مختلف سماجی برائیوں سے نبر د آزما ہے۔یہ سماجی برائیاں کوئی نئی نہیں ہیں، کسی نے کہا ہے سماج کو نقصان برے افراد سے کم اچھے افراد کی خاموشی سے زیادہ پہنچتاہے۔ہم لوگ ایمان کے تیسرے درجے میں جی رہے ہیں کہ برائی کو دیکھتے ہیں ،دل میں براسمجھتے ہیں یا نہیں پتہ نہیں، جب کہ اگر برائی کودیکھاجائے تو طاقت سے روک دینے کاحکم ہے، یہ بھی نہیں ہوسکتاتو زبان سے برائی کے خلاف آواز بلند کی جائے،اورآخری درجہ تو ہے ہی کہ دل میں اسے براسمجھا جائے،سماجی برائیوں پر قدغن لگانے اور اصلاح معاشرہ کے طرز پر اقدامات اٹھانے کے لیے ان دنوں ادارہ صوت الاسلام کے صدر اور آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے سکریٹری مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی میدان عمل میں ہیں، نوجوان عالم دین ہیں،بے باک مقرر ہیں۔

ایسابھی نہیں ہے کہ مولانا کی یہ سرگرمیاں حالیہ دنوں نئی ہیں۔ تاریخ کے اوراق اس بات کے گواہ ہیں کہ گذشتہ ڈیڑھ دو دہائیوں میں جب کبھی ملت اسلامیہ پر کوئی افتاد آن پڑی ہے مولانامحمدعمرین محفوظ رحمانی نے ایک ٹیم لے کر میدان عمل میں نکل کر اس کا مقابلہ کیا ہے ۔ بات قادیانیت کی ہو یاحالیہ دنوں طلاق ثلاثہ کی ہو،شریعت میں مداخلت کی ہو یاپھر شہر کے ایسے مسائل جس کا راست تعلق ملت اسلامیہ سے اور شہر کے مسلمانوں سے ہو۔ مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی نے اپنی بساط بھر جدوجہد اورکوشش کی ہے ۔اس کانتیجہ بھی ملا ہے ۔ حالیہ دنوں مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی نے جوا،سٹہ،شراب،نشہ،قتل ،خود کشی جیسی سماجی برائیوں کے خلاف ایک بار پھر تحریک شروع کر رکھی ہے۔ مولانا کی اس جدوجہد کے تناظر میں ہمیں بانی معہد ملت مولانا عبدالحمید نعمانی ؒ کی یاد آ رہی ہے۔ گذشتہ دنوں شہر اے ایس پی چند کانت کھانڈوی نے مولانامحمدعمرین سے ملاقات کے لیے مدرسہ معہدملت آئے یہاں مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی نے حالات حاضرہ پر ان سے خصوصی گفتگو کی۔ ہمیں 70۔80 کی دہائی کاوہ زمانہ یاد آ گیا جسے ہم نے بزرگوں سے سن رکھا ہے کہ ملت کی خستہ حال چٹائی پر بیٹھ کر مولاناعبدالحمیدنعمانی رحمتہﷲعلیہ نے اسی طرح ملت کی قیادت کی ہے۔ ( ہماری تحریر کا ہر گز مقصد نہیں کہ ہم مولانا محمد عمرین کاموازنہ مولانا عبدالحمید نعمانی سے کریں لیکن قیاد ت تو بہر حال قیادت ہوتی ہے ۔ جو ہر دور میں علمائے کرام کا ہی خاصہ ہے اور یہ ملت ایسے علماء سے کبھی خالی نہیں رہی ہے) ورنہ ہم نے تو یہ بھی سن رکھا ہے کہ پولس کنٹرول روم سے امن کمیٹی کی میٹنگ یا پھر صاحب کا فون آجائے ملاقات کے لیے تو مدرسہ کا شیخ الحدیث درس چھوڑ کر ملاقات کے لیے پہنچ جاتاہے ۔ یہ باتیں ہوسکتاہے ناگوار بھی گزرے لیکن آج بدقسمتی اس بات کی ہے کہ علمائے کرام خود اپنی شناخت اوروقار کو نہیں پہچان پارہے ہیں۔ برائیوں کو دیکھنے کے بعد دو ٹوک اور بر ملا اظہار ضروری ہے۔ آج سماج ومعاشرہ ایسے افراد سے خالی ہوتانظرآ رہاہے۔ علمائے کرام کی ذات عوام نیز خواص کے لیے بھی مایوسی کے اس ماحول میں روشنی کا استعارہ ثابت ہو سکتی ہے لیکن اس کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ کمزوروں کواٹھایا جائے ۔ سہارا دیا جائے۔ چھوٹوں کو بڑا بنایا جائے۔ ایک نصب العین طے کیا جائے۔ تب ہی ہم مذہبی٬سیاسی اور ملی سطح پرپوری جرأت کے ساتھ رہنمائی کر سکتے ہیں۔ مایوسیوں کے اس دور میں خود اعتمادی کے ساتھ اقتداروقت اور حکام سے نظرسے نظر ملا کر گفتگو کرنے اور اپنے حق کو منوانے کی طاقت رکھنے والے اب کہاں ہیں؟ گنے چنے چند علماء ہی ہیں انہیں میں سے ایک مولانا محمد عمرین کی بھی شخصیت نظرآتی ہے۔ حالات چاہے جتنے سنگین ہوں مایوسی تو ہمارے درمیان کفر ہے ۔ بلا شبہ مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی مقامی سطح پر اسلاف،علمائے کرام کی تعبیرنظر آتے ہیں اور کیوں نہ نظرآئے۔ ان کی رگوں میں مولانا محفوظ الرحمن قاسمی کا ہی خون ہے۔ جن کی آواز ایک دو سال نہیں برسوں تک مسجد مدرسہ اوراصلاح معاشرہ کے تناظر میں گونجی ہے۔ بد قسمتی تو اس بات کی ہے کہ آج علمائے کرام کی زندگیاں اس وصف سے عاری ہورہی ہیں ورنہ ابھی ماضی قریب تک حکمرانوں کا طنطنہ بھی علمائے کرام کے سامنے ہیچ تھا۔حق گوئی اور بے باکی اپنی زندگی کا سب سے جلی عنوان بنانے والے آج حق و صداقت کے لیے مصلحت پسندی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہمارے اپنے درمیان مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی جیسی شخصیت ہے اور موصوف نے مولاناعبدالحمید نعمانیؒ جیسی شخصیت سے عزم و استقلال ،ہمت و جرأت ،حق گوئی اور بیباکی کا جو سبق حاصل کیا ہے آج اس پر گامزن ہیں۔ سماجی برائیوں کے خلاف اٹھنے والی اس تحریک کے خلاف ہم سب کو مل جل کر ایسے بے باک اور جری عالم دین کے ہاتھوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے کہ جدوجہد آزادی کے وقت مولاناحسین احمد مدنی،مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کاجو فکر و عمل تھا وہ آج ہمیں نظر آ جائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے

کمینٹ باکس میں کوئی بیحدہ الفاظ نہ لکھے بڑی مہربانی ہونگی

ایک تبصرہ شائع کریں (0)