صدقۂ فطر کی فضیلت

0

 صدقۂ فطر کی فضیلت 


انٹر نیشنل ہیومن رائٹس کے صدر حضرت صابر نورانی (مدنی دربار) کا صدقۂ فطر کے تناظر میں ایمان افروز پیغام!!!

 



مالیگاؤں:(نامہ نگار) صدقہ فطر کے تناظر میں انٹر نیشنل ہیومن رائٹس کے صدر حضرت صابر نورانی (مدنی دربار) نے اپنا ایمان افروز پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’’بے شک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کیے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لیے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرضداروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔‘‘

’’آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجئے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرمادیں اور انہیں (ایمان و مال کی پاکیزگی سے) برکت بخش دیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں، بے شک آپ کی دعا ان کے لیے (باعثِ) تسکین ہے، اور اﷲ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔‘‘

’’بے شک وہی بامراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہوگیاo اور وہ اپنے رب کے نام کا ذکر کرتا رہا اور (کثرت و پابندی سے) نماز پڑھتا رہا۔‘‘

’’حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اﷲ عنہما نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فطرانے کی زکوٰۃ فرض فرمائی ہے کہ ایک صاع کھجوریں یا ایک صاع جَو ہر غلام اور آزاد مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے مسلمان کی طرف سے اور حکم فرمایا کہ اسے لوگوں کے نماز عید کے لیے نکلنے سے پہلے ہی ادا کر دیا جائے۔‘‘ 

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم صدقۂ فطر کا ایک صاع کھانا نکالا کرتے یا ایک صاع جَو یا ایک صاع کھجوریں یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع کشمش میں سے۔‘‘ 

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ صدقہ فطر نماز عید کے لیے جانے سے پہلے ادا کیا جائے۔‘‘


اس کو امام مسلم، ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

’’سلیمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی (روزہ) افطار کرے تو کھجور سے کرے کیونکہ اس میں برکت ہے، اگر کھجور نہ پائے تو پانی سے افطار کرے کیونکہ یہ پاک ہے، نیز فرمایا مسکین کو صدقہ دینا صرف صدقہ ہے لیکن رشتہ دار پر صدقہ دو چیزیں ہیں صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی۔‘‘ اِس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ فطر کو فرض فرمایا جو روزہ داروں کی لغویات اور بیہودہ باتوں سے پاکی ہے اور غریبوں کی پرورش کے لیے ہے۔ جس نے نماز عید سے پہلے اسے ادا کیا تو یہ مقبول زکوٰۃ ہے اور جس نے اسے نماز عید کے بعد ادا کیا تو یہ دوسرے صدقات کی طرح ایک صدقہ ہوگا۔‘‘

اس حدیث کو امام ابو داود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

’’حضرت عبد اللہ بن ابی صعیر رضی اللہ عنہ اپنے باپ رضی اللہ عنہ (سے) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: گندم کا ایک صاع (صدقہ فطر) تم میں سے ہر چھوٹے بڑے، آزاد وغلام، مرد و عورت، غنی اور فقیر ہر ایک پر فرض ہے۔ غنی کو اللہ تعالیٰ (اس کے ذریعے) پاک کر دیتا ہے اور فقیر جتنا دیتا ہے اس کی طرف اس سے زیادہ اسے واپس لوٹا دیا جاتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد، عبد الرزاق اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

’’حضرت حسن سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے رمضان کے آخر میں بصرے کے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اپنے روزوں کا صدقہ نکالو۔ لوگ کچھ نہ سمجھے تو انہوں نے فرمایا کہ جو یہاں مدینہ منورہ کے رہنے والے ہیں وہ اپنے بھائیوں کے پاس جائیں اور انہیں بتائیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقۂ فطر کو مقرر فرمایا ہے کہ ایک صاع کھجوریں یا جَو اور نصف صاع گندم ہر آزاد، غلام، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے کی طرف سے۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور غلے کی فراوانی دیکھی تو فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے تمہیں وسعت دی ہے لہٰذا ہر چیز کا ایک صاع رکھ لو‘‘۔ اس حدیث کو امام ابو داود، نسائی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

’’حضرت عوف رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عید والے دن نمازِ عید سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنے کا حکم دیتے تھے، اور اس آیتِ کریمہ کی تلاوت فرماتے تھے: {بے شک وہی بامراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہوگیا۔ اور وہ اپنے رب کے نام کا ذکر کرتا رہا اور (کثرت و پابندی سے) نماز پڑھتا رہا۔}‘‘ اِس روایت کو امام بزار نے بیان کیا ہے۔

’’حضرت عبد اﷲ بن ثعلبہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عید الفطر سے ایک دن یا دو دن پہلے لوگوں سے یوں خطاب فرمایا: ایک صاع جَو یا ایک صاع گندم ہر دو میں تقسیم کرو یا ایک صاع کھجور یا جَو ہر آزاد اور غلام شخص کی طرف سے ادا کرو۔‘‘


اِس حدیث کو امام عبد الرزاق نے روایت کیا ہے۔

.’’حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وادی مکہ کے بیچ ایک پکارنے والے کو حکم دیا کہ وہ یہ ندا لگائے کہ صدقۂ فطر ہر مسلمان چھوٹے بڑے، مرد و زن، آزاد و غلام، شہری و دیہاتی پر ایک صاع جَو اور ایک صاع کھجور واجب ہے۔‘‘ اِس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور فرمایا: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے.

’’حضرت مجاہد کہتے ہیں کہ صرف وہی صدقہ فطرانہ کہلائے گا جو عید الفطر تک ادا کر دیا جائے گا اور جس نے اس عید کے بعد کچھ صدقہ دیا تو وہ (فطرانہ نہیں بلکہ صرف) صدقہ ہو گا۔‘‘ اِسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔



ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے

کمینٹ باکس میں کوئی بیحدہ الفاظ نہ لکھے بڑی مہربانی ہونگی

ایک تبصرہ شائع کریں (0)