لاغر و لاچار اردو کی صحافت کے ٢٠٠ سال مکمل ہونے پر جشن

0

 خصوصی پیشکش 

سعید پٹیل جلگاؤں


 اردو زبان و ادب باالخصوص اردو اخبارات و رسائل کے صحافی ، کالم نویس و اصناف ادب کا شعبہ جو فن صحافت سے وابستہ ہو ان دنوں ہم سب اردو والے ملکر اردو صحافت کے ٢٠٠ سال مکمل ہونے کا جشن منارہے ہیں۔یہ جشن مختلف طریقوں سے جوش و خروش سے منایا جارہاہے۔جس زبان کو ہمارے بڑوں

نے اپنے خون جگر سے سنچا ،اس کی مع محافظ بن کر نشونما کی۔اس زبان نے جنگ آزادی کی ہر چھوٹی ۔بڑی تحریک میں پیش۔پیش رہ کر بڑا شاندار و جاندار 

کردار ادا کیا۔لیکن آج یہ زبان لاغر اور لاچار ہوکر رہ گئ ہیں۔اس کی اس حالت کےلیئے کون ذمہ دار ہے۔؟

 ہم سب اچھی طرح سے جانتے ہیں۔پھر بھی اس کے لکھنے اور پڑھنے والے ان دیوانوں نے اسے تازہ اور توانا رکھۓ ہوۓ ہیں۔جو نہ ارود سے پیسہ کماتے ہے اور نہ اردو نے انھیں مستقل کوئی روزگار دیا ہو۔ ہاں اس کی ترقی میں ان قلم کاروں کا بھی حصہ ہے جو اردو کے طعام سے روزانہ شکم شیر ہوتے ہیں۔لیکن جب ان کے سامنے اردو کو خرید کر پڑھنے کی بات آتی ہے تو انھیں رسالہ تو بہت دور کی بات ہے انھیں اخبار کا نام بھی معلوم نہیں ہوتا۔؟ہاں جہاں ان قارائین اور ان کی نمائندگی کرنے والے قلم کاروں کا یارانہ و دوستانہ ہوتا ہے وہاں کا سب کچھ یاد رہتا ہے۔یہاں ان کی یوم سالگرہ اور یوم وفات کی برسی تک کو وہ کبھی نہیں بھولتے۔خیر اردو اخبارات کو خریدکر پڑھنا یہ قارائین کو بڑا مسلہ معلوم ہوتا ہے۔

اردو اخبارات کو خرید کر پڑھنے والے اور اپنے کاروبار و تجارت کی تشہر کرنے والے مل جاۓ تو یہ مسلہ اچھی طرح حل ہوسکتا ہے۔لیکن اس کے لیئے اردو دنیا کو شعبہ تشہر کو مضبوط کرنا ہوگا۔ اصناف ادب میں صحافت ایک بہت بڑا میدان ہے۔جہاں روزانہ نئ سرخیوں کو جنم دینا پڑتا ہے۔اور مشکلات سے پربھی ہے۔اس میدان میں آنے والے قلم کار کا بہترین ذہنی و فکری صلاحیتوں سے پر ہوناضروری ہے۔جس کے پاس 

مطالعہ و نظر کی گہرائی اور مختلف علوم و فنون سے دلچسپی ہوں گی ، اس کی سوچ اور اس کی تلاش میں معاشرے کا دکھ۔درد۔رنج و غم اور مظلوم کی آہ و چینخ ، پکار سے وہ تڑپ اٹھتا ہو ایسا صحافی ہی صحافت کو چار چاند لگا سکتا ہے۔لیکن آج صحافت بالخصوص اردو صحافت کی یہ حالت ہے کہ اس کے ذریعے ہر قسم کے خواص میٹھی اور تعریفی صحافت چاہتے ہیں۔جبکہ عام قاری کو مظلوم ،متاثرین ،ناانصافی کی شکار مجموعی انسانی 

برادری کے دکھ۔درد کی عکاسی مطلوب ہے۔اسے اپنے مطالبات کو پیش کرنے والی صحافت پسند آتی ہے۔سائینسی اور تکنیکی تعلیم کتنی بھی ترقی کرلے وہ 

روایتی گفتگو ،اعتراف ،حمایت ،برائیوں کی نشاندہی ،روک۔ٹوک سمیت اصلاح معاشرہ کے ذرائع کی جگہ نہیں لے سکتی۔کیونکہ صحافت سماج کا آئینہ ہے۔سماج کو اس کی سچائی پر اعتماد ہے۔آج کا قاری تحریر کے فرق کو آسانی سے سمجھنے لگا ہے۔ماضی سے لےکر آج تک کے کامیاب دو سو سال کے طویل عرصہ میں اردو صحافت نے جمہوری قدروں کو سنبھالے رکھا ہے۔اور آج بھی ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو پروسنے کا کام انجام دے رہی ہے۔اردو صحافت کتنی مشکلات سے گذر کر آج پورے ملک عزیز میں اپنی دو صدی کے سفر کا جشن پر جوش طریقہ سے منارہا ہے۔اور یہ اس کا حق بھی ہے کیونکہ 


صحافت ہی سماج کا آئینہ ہے۔اس لیئے صحافی حضرات کو قصیدہ خوانی سے باہر نکل کر انسانی مظلومین کے درد کی عکاسی مطلوب ہے۔یہ مطالبات کا دور ہے۔کیونکہ انسان اپنے ہی جیسے انسان سے بڑے پیمانے پر دھوکہ کھا چکا ہے۔صحافت انسانی سماج کی آخری امید کی کرن ہے۔ اسےتازہ دم رکھنا بھی اسی معاشرے کی ذمہ داری ہے۔اردو صحافت کو دو سو سال مکمل ہونے پر خوشی کے جشن کی مبارکباد قبول ہو۔

Tags

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے

کمینٹ باکس میں کوئی بیحدہ الفاظ نہ لکھے بڑی مہربانی ہونگی

ایک تبصرہ شائع کریں (0)