غریبوں کی فاقہ کشی اور امیروں کا بچا ہوا ضائع ہوتا کھانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

0

 خصوصی پیشکش 


  سعید پٹیل جلگاؤں 

اقوام متحدہ  کی رسد اور زراعتی تنظیموں کے رہنماؤں نے فاقہ کشی کی زندگی جینےوالے غریب ممالک کی مدد کےلیئے دولت مند ممالک نے کشادہ دلی سے مدد کرنی چاہیئے۔اس طرح کی اپیل کی ہے۔آج بھی دنیا میں پچاس فیصد سے زائد لوگ بھوکے سوتے ہیں۔یا نصف پیٹ کھانے کو ملتا ہے۔ہمارے ملک میں بھی بھرپیٹ کھانے والے اور پیٹ بھر جانے کے بعد برتن میں بچا ہوا کھانا ضائع کرنے والے ایک طرف ہے تو دوسری جانب فاقہ کرنےوالے ،باسی یا کم کھانا کھاکر بیمار پڑنےوالے لاکھوں لوگ ہیں۔ابھی حال ہی میں مطالعہ میں آیا ہےکے دنیا میں ٢٠ سے ٢٥ فیصد غلہ پیداکرنے لائق زمین بیکار پڑی رہتی ہے۔اسی طرح بڑی۔بڑی ندیوں کا پانی منصوبہ کے فقدان سے ضائع 



ہوجاتا ہے۔یہ رپورٹ اقوام متحدہ کے ماحولیات کے شعبہ کے مشاہدہ میں آئی ہے۔اسی طرح دوسری جانب  کئ ٹن تیار کھانا جیسے کھایا جاسکتا ہے  ہرسال بیکار ہوجاتا ہے یا ضائع کردیا جاتا ہے۔یہ حال صرف بھارت میں ہے ایسا نہیں بلکہ یہ صورتحال دنیا کے دیگر ممالک کا بھی ہے جہاں بڑے پیمانے پر اناج جھوٹا ہوکر پھینک دیاجاتا ہے۔یہ بین الاقوامی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے۔یہاں قابل ذکر عام لوگوں کے گھروں میں  ،ہوٹلوں ،شادی بیاہ ، سالگرہ کی تقریبات  میں تیار بچا ہوا کھانا  ضائع  ہوجاتا ہے۔اناج کی خریدی ، کھانا بنانے کا طریقہ کار میں نظم کی منصوبہ بندی نہ ہونے ساتھ میں ضرورت مندوں سے انسانی ہمدردی کے فقدان سے بھی ہمارےملک میں تیار اناج ضائع ہوجاتا ہے۔حالانکہ کئ بڑےشہروں میں کئ سماجی خدمتگار ادارے و تنظیمیں تقریبات سے کھانا اکٹھا کرکے بے سہارا بھوکے لوگوں کو تلاش کرکےان تک کھانا پہونچاتی ہیں۔ کھانے کی تقسیم میں توازن اور کفایتی ترتیب ہوتو کئ ٹن اناج بچاکر غریبوں تک پہونچایا جاسکتا ہے۔اناج کے سنگین مسلے کو سنجیدگی سے لیاجانا چاہیئے۔منصوبہ بندی ہونی چاہیئے۔تاکہ ملک میں ہرشہری کو اناج فراہم ہو ، انھیں ان کا حق ملتا رہے۔بالخصوص فاقہ کش و غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گذارنےوالوں کا خیال رکھا جانا ضروری ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے

کمینٹ باکس میں کوئی بیحدہ الفاظ نہ لکھے بڑی مہربانی ہونگی

ایک تبصرہ شائع کریں (0)