نیم کے پتّےافسانہ

0

از قلم: سعید پٹیل جلگاؤں

 


ٹرین نے پلیٹ فارم سے آہستہ آہستہ رینگنا شروع کردیاتھا۔پلیٹ فارم کی ایک۔ایک چیز پیچھے چھوٹتی جارہی تھی۔ٹرین کے ٹریک بدلنے کی عجیب سی آواز کے ساتھ رفتار تیز ہوتی ہوئی شہر بھی نظروں سے دور ہوتا جارہاتھا۔شرماجی نے کھڑکی سے اپنے بیٹے کو دیکھنے کی کوشش کی۔لیکن وہ بھی دیکھائی نہیں دے رہاتھا۔شاید وہ ٹرین کے ساتھ۔ساتھ چلنا مناسب نہ سمجھکر ٹرین کی مخالف سمت 

میں مڑگیا تھا۔مسافر اپنے۔اپنے سامان کو ٹھک سے رکھ کر اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے تھے۔شرماجی کو بزرگ ہونے کی وجہ سے نیچے کی برتھ والی نشست ملی تھی۔اپنے سامان کو کھڑکی کی طرف رکھ کر انھوں نے دونوں پیر لمبے کرکے لیٹ جانا پسند کیا۔ابھی بھی ان کی نشست کے اوپر والی دو اور سامنے کی تین نشستیں خالی پڑی تھی۔جبکہ ٹرین کے چارٹ میں تو 

یہیں سے سوار ہونےوالے مسافروں کے نام درج تھے۔شاید وہ لوگ آگے یا پیچھے 

کے کوچ میں چڑھ گئے ہوں گے۔شرما جی نے من ہی من اپنا سوال اور اپناہی جواب سوچ کر لیٹ گئے۔تبھی ٹکٹ چیکر کی آواز نے شرماجی کو اٹھ بیٹھنے پر مجبور کیا۔" صاحب ٹکٹ بتانا ، شرماجی نے قمیض کی جیب سے ٹکٹ نکال کر چیکر کو بتایا۔ٹھک 

ہے ، آرام کرو " پھر پیچھے مڑکر آواز دی ، اے 

نوجوانوں ادھر آؤ ، یہاں تمہاری پانچ نشستیں ہیں۔

اتنا سنتےہی دو لڑکے اور تین لڑکیاں آ پہنچیں۔اس میں سے ایک لڑکے نے کہا" ہماری مختض کی ہوئی 

سٹیں تو یہاں ہے ، ہم سب ٹرین کے پیچھے کی کوچ 

میں چڑھ گئے تھے۔ہاں ، ہاں ، چلو اب اپنے۔اپنے بیگ ٹھک سے رکھ دو ، پانچوں نے اپنی پشت پر لٹکاۓ بیگوں کو اوپر کی سیٹ پر ڈھنگ سے رکھکر نیچے 

کی برتھ پر بیٹھ گئے اور کوچ و اپنی جگہ تلاش کرنے کی جدو۔جہد پر خود ہی ایک دوسرے کا مذاق کرنے لگے۔دو لڑکے و دولڑکیاں جوڑا۔جوڑا بیٹھے اور تیسری لڑکی اوپر کی برتھ پر اپنے بیگ کو سرہانہ بناکر لیٹ 

گئیں۔اس میں سے ایک نے شرماجی سے کہا " بابا آپ اوپر والی برتھ پر چلے جاۓ تو بہت اچھا ہوگا ، تب ہی سامنے والی کھڑکی کی سنگل نشست پر بیٹھے ادھیڑ عمر کے شخص نے غصے کے لہجے میں کہا۔"

ارے بیٹی وہ بزرگ ہے ، آپ سب نوجوان ہو ، بھلا وہ

کیسے اوپر چڑھ۔اتر کریں گے۔، لواب ان سے کس نے پوچھا تھا؟ جو یہ صاحب بیچ میں بول پڑے ، اس کے مشورے کا مذاق کرتے ہوۓ ایک لڑکے نے کہا۔پھر اس شخص نے اپنے آپ کو خاموش رکھنے میں ہی اپنی عزت سمجھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شرماجی نے جواب دیتے ہوۓ کہا ،بیٹا مجھے دو۔تین بیماریوں کی 

شکایت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے بار۔بار باتھ روم جانا پڑتا ہے ، ورنہ میں تمہاری بات مان لیتا۔۔۔۔۔۔۔۔اس پر ایک لڑکی نے کہا۔۔۔۔ارے چھوڑو ، کوئی بات نہیں ، ہمارا انجواۓ مزہ بیکار ہوجاۓگا۔۔۔۔۔۔۔۔ چلو جلدی سے سفر کے انجواۓ کو شروع کرو۔۔۔۔۔۔۔ویسے یہ اوپر آرام سے لیٹیں شانی رنجونے اپنے سفر کا مزہ کڑوا کردیا۔۔۔۔تب ہی رنجو بول پڑیں ، میں نے کیاکیا۔۔۔۔؟ 

تم چاروں کے درمیان میں رکاوٹ نہیں بنی ہوں۔۔۔۔۔۔

دوسری نے کہا ، کیابات کرتی ہو راجو تیرے ساتھ جوڑی کےلیئے دوستی کرنے تیار ہے۔۔۔لیکن تو ہیں کے 

اپنے آپ کو پتہ نہیں کیا سمجھتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔اب ہم چاروں کو ہی دیکھ ہم کیسے "زندگی نہ ملے گی دو بارا" کو سامنے رکھ کر زندگی سےلطف اندوز ہوتے ہیں، دقیانوسی لڑکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک تو ہے کہ جاب مل جانے کے بعد بھی اکیلی ہو۔۔۔۔۔

رنجو نے جواب دیتےہوۓ کہا۔۔۔۔۔میں نے سوبار کہا ہےنا۔۔۔۔۔۔ مجھے پرانے قسم کے لوگ پسند ہیں۔مجھے اس طرح کی دوستی وغیرہ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔دوسرا لڑکا بولا ، رنجو یہ ہمسفر والا ساتھ ہے۔۔۔۔۔۔راجو اسی بہانے ہمارے ساتھ ہوتا تو۔۔۔۔۔تمہیں اس کے قریب جانے اور دوستی بڑھانے کا موقعہ مل جاتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم تمہیں راجو سے شادی کرنے کا مشورہ تھوڑی دے رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اور اگر راجو سےتمہاری یا ہمارے درمیان کی دوستی شادی میں بدلتی ہے تو یہ ایک ، اتفاق ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلی والی لڑکی نے درمیان میں اپنے دوست لڑکے کی بات کا ساتھ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی بھی وقت ہے۔۔۔۔میں باس سے بات کرکے راجو کو اپنے ساتھ ہونے کے لیئے راضی کرلیتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔راجو کوئی بھی ٹرین سے ہمیں ممبئ میں آ ملےگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن اس میں رنجو کی مرضی بھی تو ہو۔۔۔۔۔ورنہ وہ ممبئ آکر ہم پر غصہ ہوجاۓگا۔۔۔۔۔۔۔دوسرے لڑکے نے مشورہ دیتے ہوۓ اپنی ساتھی لڑکی کو سمجھایا۔۔۔چلو خیر کوئی بات نہیں۔۔۔۔۔۔آئندہ پھر کبھی موقعہ ملے تو دونوں کو قریب لانے کی کوشش کریں گے۔ویسے بھی رنجو اپنے جاب کی زندگی میں کیسے اکیلے رہیں گی۔۔۔۔۔۔۔اور وہ بھی۔۔۔۔۔۔۔ جاب کرتےہوۓ۔۔؟ اندھیرے کو چیرتے ہوۓ ٹرین تیز۔۔۔۔بہت تیز اپنے سفر پر رواں۔دواں تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ نیچے کی برتھ پر ایک لڑکی اپنے دوست لڑکے کے سرکو اپنے پہلوں میں لے کر بالوں سے کھیل رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔دوسری نے اپنے دوست لڑکے کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر اس کے شانوں پر اپنا سر رکھ کر ساتھ۔ساتھ بیٹھی تھیں۔۔۔۔ شرماجی نئ نسل کی گفتگو اور حرکات سے سونے کا ڈرامہ کرتے ہوۓ فکر سے پریشان اپنے سنہرے اور پاکیزہ دور میں اپنی سوچ کو لیجانے میں کامیاب ہوگئےتھے۔

ایک وہ دور تھا جب پچاس لڑکوں کے ساتھ چار۔پانچ لڑکیاں تعلیم حاصل کرتی تھیں۔۔۔۔۔حقیقت کیا ہےاور 

افسانہ کیا ! وقت گذرتا گیا۔حالانکہ یہ کوئی نئ بات نہیں ہے۔ماضی میں بھی گمراہ راستوں پر انسانوں کا بے ہنگم شور برپا ہوتا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ بھی اس وقت کی نئ نسل کا گمراہ معاشرے کا گمراہ شور ہے۔۔۔۔۔۔پھر اچانک اس سے بہتر کوئی رواج کا طوفان آۓ گا اور اس نسل کی غیراخلاقی تہذیب جو اس وقت پروان چڑھنے کےلیئے بیتاب ہے۔۔۔۔۔۔ندی کے بہاؤ میں بہہ جاۓگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم جیسے بزرگ بھی شریفوں کے تعاون کے بغیر ہی اپنے ماضی کو بلاوجہ سنہرہ بتانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔پھر شرماجی پر نیندغالب آگئ اور صبح ہونے سے کوئی ایک گھنٹہ پہلے ٹرین ممبئ کی چکاچوند کردینےوالی روشنی میں داخل ہوگئ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔چاۓ گرم ۔۔۔۔۔چاۓگرم۔۔۔گرم چاۓ۔۔۔۔کی آواز نے شرماجی کو نیندسے بیدار کیا۔۔۔۔۔۔پھر شرماجی نے ہی۔۔۔۔۔۔۔۔ نیم کے پتّے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان دولڑکے اور تین لڑکیوں کو بیدار کرتے ہوۓ کہا۔۔۔۔۔۔بیٹا 

اٹھو۔۔۔۔۔۔ آخری اسٹیشن آنےوالا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Tags

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے

کمینٹ باکس میں کوئی بیحدہ الفاظ نہ لکھے بڑی مہربانی ہونگی

ایک تبصرہ شائع کریں (0)