چھٹیاں

0

 موسمِ گرما کی چھٹیاں ختم ہونے کے بعد ہم نے کئی بچوں سے ان چھٹیوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تھی۔ کئی باتیں سامنے آئیں۔ ان میں سے یہ چار اہم باتیں آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔بچوں کی زبانی ہی سنیے۔



ڈاکٹراشفاق عمر،

ثمر پبلی کیشن،مالیگاؤں

7385383867


واہ یہ چھٹیاں


رزلٹ لے کر گھر پہنچا تو رزلٹ دیکھ کر سب بہت خوش ہوئے۔امی کی خوشی دیکھنے لائق تھی۔ پورے خاندان میں پیڑے بانٹے گئے۔ شام میں ابو نے رزلٹ دیکھا تو وہ بھی بہت خوش ہوئے۔ ہم سب کو خوش دیکھ کر انہوں نے فیصلہ کیا کہ کوئی اچھا انعام دیا جائے۔ گرمیاں بھی کافی تھیں۔ گھومنے پھرنے کا لمبا پروگرام بنایا گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ بہت دنوں سے گھر پر اس کی تیاری چل رہی تھی۔ سب سے پہلے ہم گاؤں گئے۔ آٹھ دن تک ہم دادا دادی کے پاس رہے۔وہاں ہمارے کئی کزن بھی ملے۔ خوب موج مستی کی۔ کوئی کام ہی نہیں تھا اس لیے صبح سویرے سے ہم سب گاؤں کے باہر کھیتوں میں نکل جاتے تھے۔ دن بھر دوڑ بھاگ اور کھیل کود۔ رات میں قصے کہانیوں کی محفل جمتی۔ آٹھ دنوں بعدہم نانا نانی سے ملنے جا پہنچے۔ وہاں بھی یہی سب تھا۔ غرض پندرہ دن کہاں چلے گئے پتہ ہی نہیں چلا۔ اس کے بعد ۵ دنوں کے لیے ہم پڑوس کے ساحلی شہر چلے گئے۔ وہاں بھی بھرپور مزہ کیا اور خوب مستی کی۔یوں لگتا ہے بیس دن ہم نے کسی اور ہی دنیا میں گزارا۔ اس کے بعد ہماری واپسی ہوئی۔ دس دن تک تو کوئی کام نہیں ہوا۔ پورا مہینہ گزرنے کے بعد ہوش آیا کہ اب کچھ دنوں میں اسکول کھلنے والے ہیں۔ چھٹیوں کےگھر کام یاد آئے مگر کسی بھی طرح اسکول کام کا موڈ ہی نہیں ہوا۔ آخر میں جیسے تیسے سب نے مل کر ہوم ورک پورا کروایا۔ اسکول پہنچے تو ایک مہینے تک پڑھائی کا موڈ ہی نہیں بنا۔ پھر ڈر ستانے لگا کہ کہیں اس سال پڑھائی میں پیچھے نہ رہ جاؤں۔


 کاش یہ چھٹیاں نہ ہوتیں


رزلٹ لے کر گھر پہنچا تو رزلٹ دیکھ کر سب بہت خوش ہوئے۔امی کی خوشی دیکھنے لائق تھی۔ پورے خاندان میں پیڑے بانٹے گئے۔ شام میں ابو نے رزلٹ دیکھا تو وہ بھی بہت خوش ہوئے۔ چھٹیاں شروع ہو چکی ہیں اورسب نے ہی کہا کہ اب گھومنے پھرنے، کھیل کود اور مستی کے دن ہیں۔اگلے دو دن تک سب دوستوں کے پروگرام پتہ چل گئے۔ زیادہ تر سیر و تفریح اور اسی طرح کے پروگرام بنا چکے تھے۔ ہم نے بھی امی ابو سے بات کی۔ وہ لوگ سیر اور کھیل کود کے خلاف نہیں تھے مگر پڑھائی سے دوری کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔انہوں نے کئی کلاسیس میں بات بھی کرلی تھی۔ چھٹی کے پانچ دن گزار کر ہماری کلاسیں شروع ہوگئیں۔شروع میں بہت مزہ آیا۔ نئی کوچنگ کلاسوں میں نئے نئے دوست ملے۔ پڑھائی بھی خوب ہورہی تھی مگر دھیرے دھیرے پڑھائی کا بوجھ بڑھنے  لگا۔ اب یہ حال ہے کہ صبح ۷  بجے سے شام  ۷ بجے تک کئی کلاسوں میں جانا پڑتا تھا۔اب تو اسکول کے دنوں سے زیادہ کام کرنا پڑرہا تھا۔ کاش!  یہ چھٹیاں نہ ہوتیں تو اتنا بوجھ نہ پڑتا۔


چھٹیاں بڑی اچھی ہیں


رزلٹ لے کر گھر پہنچا تو رزلٹ دیکھ کر سب بہت خوش ہوئے۔امی کی خوشی دیکھنے لائق تھی۔ پورے خاندان میں پیڑے بانٹے گئے۔ شام میں ابو نے رزلٹ دیکھا تو وہ بھی بہت خوش ہوئے۔ اگلے دن پتہ چلا کہ اس چھٹیوں میں گھومنے جانے کی کافی دن پہلے سے تیاری چل رہی تھی۔ ابو نے پلان بنایا تھاکہ اب کی بار لمبے ٹور پر جایا جائے۔ پہلے سات دن ہم نے گاؤں میں گزارے۔ وہاں پورے خاندان والوں سے ملاقات ہوئی۔ خوب گھومنا پھرنا  اور کھیل کود ہوا۔ وہاں بھی ابو امی بھی ہمارے ساتھ روز چار پانچ گھنٹہ گزارتے تھے۔ ان لوگوں نے ہمیں گاؤں اور اطراف میں پائے جانے والی تمام فصلوں، درختوں اور پیڑ پودوں کی معلومات بھی دی۔ جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو ہمیں خوب مزہ آیا۔ ہم نے دیکھا کہ اسکول میں پڑھائی جانے والی بہت ساری باتیں ہمارے آس پاس موجود ہیں۔ ہمیں لگا کہ ہم اسکول کی تجربہ گاہ میں ہیں۔ موج مستی اور کھیل کودکے ساتھ علم بھی حاصل ہوتا رہا۔ ۸ ویں دن ہم پڑوس کے ساحلی گاؤں پہنچ گئے۔ سمندر سامنے تھا اور ہم خوب مزہ کر رہے تھے۔ امی ابو نے ہمیں وہاں کے بازار میں بکنے والی بے شمار قسموں کی مچھلیوں اور دوسرے سمندری جانوروں کے بارے میں بتایا۔ اس گاؤں میں ہم نے چند لڑکوں کو اپنا دوست بھی بنالیا تھا۔ انہوں نے سمندر کے بارے میں ایسی ایسی باتیں بتائیں کہ ہم حیران رہ گئے۔ ۸ دنوں میں ایسا لگا کہ ہم نے سمندر کے بارے میں سب کچھ جان لیا۔ میں تَیراکی میں کمزور تھا مگر میرے دوستوں نے مجھے تیرنے کے نئے نئے انداز بتائے۔ اب میں زیادہ اچھے انداز میں سمندر میں بے خوفی سے تیرنے والابن گیا۔

پندرہ دن یوں چلے گئے کہ ہمیں پتہ ہی نہیں چلا۔ مجھے یاد آیا کہ اس سے پہلے والے سال ہم ایک گاؤں میں گئے تھے اور وہاں امی ابو نے مجھے جنگل کے بارے میں بھرپور معلومات دی تھی۔ اس سال گاؤں کی زندگی اور سمندر کا زبردست علم حاصل ہوا۔ واپسی پر میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ سب باتیں شیئر کیں۔ اسی دوران چھٹیوں کے گھر کام کا دھیان آیا۔میں نے جلدی جلدی وہ گھر کام پورا کرنا شروع کیا اور اسکول کھلنے سے پہلے وہ کام بھی پورا ہوگیا۔ سچ کہوں تو ہر سال کی طرح اس سال کی چھٹیوں میں بھی میں نے بھرپور مزہ اٹھایا اور بہت ساری نئی نئی باتیں بھی سیکھنے کو ملیں۔


چھٹیاں بڑی کام کی ہیں


رزلٹ لے کر گھر پہنچا تو رزلٹ دیکھ کر سب بہت خوش ہوئے۔امی کی خوشی دیکھنے لائق تھی۔ پورے خاندان میں پیڑے بانٹے گئے۔ شام میں ابو نے رزلٹ دیکھا تو وہ بھی بہت خوش ہوئے۔اگلے دن پتہ چلا کہ کچھ وجوہات کی وجہ سے اس سال گھومنے پھرنے یا باہر جانےکا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ ایک دم موڈ خراب ہوگیا مگر جو وجہ بتائی گئی وہ بھی صحیح تھی۔ کچھ دنوں بعد میرے زیادہ تر دوست گھومنے پھرنے نکل گئے۔ اس کے بعدباقی بچے ہم پانچ دوستوں نے  اپنا پلان بنایا۔ ہم روز صبح کھیلنے نکل جاتے۔ اسکول قریب تھا اور اس کا کمپاؤنڈ ہمار انیا کھیل کا میدان۔ دوپہر میں جب ہم تھک جاتے تھے تو اسکول لائبریری میں چلے جاتے تھے۔ لائبریرین نے بتایا تھا کہ انہیں پورا مہینہ اسکول آنا ہے اس لیے ہم نے لائبریری کا خوب فائدہ اٹھایا۔ کہانیوں کی نئی نئی کتابیں سامنے آرہی تھیں ۔ اسی طرح دوسرے موضوعات کی کتابیں بھی اب نطر آنے لگی تھیں۔ ہم کوئی نہ کوئی کتاب گھر بھی لے جانے لگے۔ شام میں ہم پھر گھومنے نکلتے۔ اس بار ہم شہر کے باہر کا رخ کرتے ۔ ہم نے ندی، کھیت اور بہت ساری جگہوں کی سیر کی۔ پرانے قلعے میں کئی بار گئے۔ اسی طرح سیر کرتے، کھیلتے اور کتابیں پڑھتے ہمارے دن گزرتے رہے۔ ہم نے بھرپور موج مستی کی۔ اور ہاں۔۔۔۔ ہر شام ہم چھٹیوں کا گھر کام کرنا نہیں بھولتے۔ پورا مہینہ کیسے گزرا پتہ ہی نہیں چلا۔ اس دوران ہمارے دوست واپس آنے لگے۔ ہر کوئی ایک نئی داستان سناتا تھا۔ آخر میں ہم نے جانا کہ ہم جیسا مزہ تو کسی نے نہیں اٹھایا۔ ہم نےخوب کھیلا،خوب پڑھا، جگہ جگہ گھومے اور نئی نئی باتیں بھی سیکھیں۔ واقعی اس سال کی چھٹی کافی مزے دار رہی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے

کمینٹ باکس میں کوئی بیحدہ الفاظ نہ لکھے بڑی مہربانی ہونگی

ایک تبصرہ شائع کریں (0)