جدوجہد آزادی کے نوجوان ہیرو۔عبدالنبی کھاٹک

0

 ازقلم: شیخ زیا ّن احمد،جلگاؤں 


 عبدالنبی میاں جی کھاٹک 1913ء میں ایک انتہائی غریب کاشتکار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے ایک بھائی اور دو بہنیں تھیں۔جب وہ 10 سال کے تھے تو ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے باپ نے بچوں کی دیکھ بھال کی۔ماں کی موت کے بعد عبدالنبی کو املنیر(Amalner) کے بورڈنگ اسکول میں داخل کیا گیا۔عبدالنبی کے ذہن میں بچپن سے ہی ظالم انگریزحکمرانوں کے خلاف شدیدغصہ تھا لیکن سانے گروجی نے ان کے خیالات کو نیا موڑ دے کر شکل دی۔سانے گروجی کے ساتھ انھیں بہت کچھ سیکھنے اور کرنے کی رہنمائی ملی۔ اس کے بعدآزاد ہند فوج کے کمانڈر اِن چیف سبھاش چندر بوس کے خیالات عبدالنبی کے ذہن پر اثر انداز ہونے لگے۔ وہ بوس بابو سے ملنے کلکتہ گئے۔اس وقت تک آزادی کے انقلاب کی نوعیت بہت شدّت اختیار کر چکی تھی۔ عبدالنبی نے آزادی کی کئی تحریکوں میں حصہ لیا۔ آزادی کے بعد انہوں نے گوا کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

جلگاؤں سے روزنامہ جَن شکتی کے بانی ایڈیٹر سی ایم برجلال پاٹل کی ٹیم میں شامل ہوئے اور لڑنے کے لیے گوا چلے گئے۔ وہاں عبدالنبی کو بھی اس وقت کی پرتگالی حکومت نے جیل میں ڈال دیا۔

 انتہائی سادہ زندگی اور اعلیٰ سوچ رکھنے والے عبدالنبی تعلیم اور تعلیمی اداروں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔انھوں نے بورنار میں مراٹھی اسکول کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو مراٹھی میڈیم کا ایک سیکنڈری اسکول قائم کرنے کی ترغیب دی۔وہ بہت ہی اعتدال پسند زندگی گزارتے تھے۔ زندگی کے آخری دن تک مثالی زندگی گزاری۔عمر بھر سہارا لئے بغیرجِئے۔آج کل کے نوجوانوں کے لیے ایک ساتھ تک دو کلومیٹر پیدل چلا نہیں جاتاہے۔صبح 8اور شام 4بجے کھانا اُن کا روزمرہ کا معمول تھا۔6جون 2012ء کو ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کے پسماندگان میں دو بیٹے، تین بیٹیاں، پوتے پوتیاں شامل ہیں۔ایک فرزند نثار احمد عبدالنبی کھاٹک ملّت ہائی سکول مہرون کے سبکدوش معلم ہیں میں ۔ جن کا بڑا فرزند رضوان کھاٹک سال 1998 جلگاؤں ضلع میں ناسک بورڈدسویں کے امتحانح میں اول آیا۔ اِس وقت اِن کی سافٹ ویئر کمپنی جلگاؤں کے بی جے مارکیٹ میں ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے

کمینٹ باکس میں کوئی بیحدہ الفاظ نہ لکھے بڑی مہربانی ہونگی

ایک تبصرہ شائع کریں (0)